یاد تیری فلک پیر لئے بیٹھے ہیں
یاد تیری فلک پیر لئے بیٹھے ہیں
شکوۂ گردش تقدیر لئے بیٹھے ہیں
بے اثر نالۂ شب گیر لئے بیٹھے ہیں
ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر لئے بیٹھے ہیں
مصحف حسن کی تفسیر لئے بیٹھے ہیں
دل میں ہم آپ کی تصویر لئے بیٹھے ہیں
جانے کب منہدم ارکان عناصر ہو جائیں
ریت پر جسم کی تعمیر لئے بیٹھے ہیں
اس نے دزدیدہ نگاہوں سے کبھی دیکھا تھا
دل میں اب تک خلش تیر لئے بیٹھے ہیں
نقش بر آب ہے دراصل حباب ہستی
کب یہ ممکن ہے جو تعمیر لئے بیٹھے ہیں
ایک ہی آہ میں برہم ہے نظام عالم
اپنے نالوں میں وہ تاثیر لئے بیٹھے ہیں
زندگی موت ہے اور موت حیات جاوید
خواب ہستی کی یہ تعبیر لئے بیٹھے ہیں
دور حاضر میں غنیمت ہے بہت اے شعلہؔ
آپ جو عزت و توقیر لئے بیٹھے ہیں