یاد ماضی

زندگی کے سیاہ کمرے میں
بیتی یادوں کے چند جگنو ہیں
جو مسلسل تسلیاں دے کر
مجھ کو سمجھا رہے ہیں برسوں سے
صرف پانا ہی شرط عشق نہیں
عشق تو وہ عظیم مرکز ہے
جس میں ہر شے سے پیار ہوتا ہے
جس میں کھونا بھی اک عبادت ہے
اور جب جب یہ بات سن کر کے
میں ذرا بھی اداس ہوتا ہوں
تو مری کوٹھری کا ہر کونا
ٹکٹکی سا لگائے دیکھے ہے
گویا مجھ سے وہ کہہ رہا ہو یہ
یاد ماضی عذاب ہے لیکن
وقت تنہائی یاد کے جگنو
تجھ کو یہ روشنائی دیتے ہیں
مصلحت یہ ہی در حقیقت ہے
جو بھی ہے رب کی بس عنایت ہے
میں بھی کچھ متفق ہوں اب ان سے
وقت تنہا سیاہ کمرے میں
یاد ماضی کی روشنی کے سبب
میں یہ تنہائی جھیل سکتا ہوں
اپنے اشکوں سے کھیل سکتا ہوں
اور ان سب تمام باتوں سے
اب نتیجہ یہی نکلتا ہے
یاد ماضی بھلے عذاب سہی
یاد ماضی خدا کی رحمت ہے