آگے جو ہوگا وہ ہوگا خیر کر آیا ہوں میں
آگے جو ہوگا وہ ہوگا خیر کر آیا ہوں میں
جو زبر بنتے تھے ان کو زیر کر آیا ہوں میں
ہاں بہت مشکل تو ہے لیکن یہ نا ممکن نہیں
درد کی طغیانیوں میں تیر کر آیا ہوں میں
مر گیا ہے کوئی مجھ میں اس پہ مٹی ڈالیے
اپنی ساری خواہشوں کو ڈھیر کر آیا ہوں میں
درد وحشت رنج و غم تنہائیاں شام الم
جو مجھے گھیرے تھیں ان کو گھیر کر آیا ہوں میں
وہ جسے پانے کی حسرت دل میں مدت سے رہی
اس کے ہی خاطر اسے اب غیر کر آیا ہوں میں
کام یہ آساں نہیں اس میں کلیجہ چاہئے
عشق کی وادی سے ہاں رخ پھیر کر آیا ہوں میں
جانے کس کی دید کی حسرت لئے دل میں شہابؔ
دشت و صحرا سے بھی آگے سیر کر آیا ہوں میں