یاد آتے ہی رہے دل سے نکالے ہوئے لوگ
یاد آتے ہی رہے دل سے نکالے ہوئے لوگ
کس کی میراث تھے اور کس کے حوالے ہوئے لوگ
شہر آشوب میں آنسو کی طرح پھرتے ہیں
ہائے وہ لوگ کسی خواب کے پالے ہوئے لوگ
اول اول تو ہماری ہی طرح لگتے تھے
منصب عشق پہ آئے تو نرالے ہوئے لوگ
جانے کس سمت انہیں تلخیٔ دوراں لے جائے
اپنی پہچان کو نیزوں پہ اچھالے ہوئے لوگ
ایک رت آئی کہ خوشبو کی طرح پھیل گئے
اور پھر وقت کی موجوں کے حوالے ہوئے لوگ