وسعت دامن صحرا دیکھوں

وسعت دامن صحرا دیکھوں
اپنی آواز کو پھیلا دیکھوں


ہاتھ میں چاند کو پگھلا دیکھوں
خواب دیکھوں کہ خرابہ دیکھوں


سطح پر عکس کو بہتا دیکھوں
دریا دریا ترا سایہ دیکھوں


خود کو دیکھوں ترا چہرہ دیکھوں
آئینہ توڑ دوں پھر کیا دیکھوں


اپنے سائے کو برہنہ پاؤں
ساتھ رسوائی کو ہنستا دیکھوں


رتیلی دھوپ میں آتے جاتے
محمل وقت کو ٹھہرا دیکھوں


صبح کے پھول کو ہنستا پا کر
رات کی آنکھ میں کانٹا دیکھوں


شہر میں لوگ جسے ڈھونڈتے ہیں
اپنے گھر میں اسے بیٹھا دیکھوں


ایسا دن آئے نہ ہرگز عادلؔ
جیسے جی میں اسے مرتا دیکھوں