وہ ذرہ جس میں اک عالم نہاں تھا

وہ ذرہ جس میں اک عالم نہاں تھا
ادب کا ایک بحر بیکراں تھا


وہ نبض وقت کو پہچانتا تھا
وہ رہبر تھا وہ میر کارواں تھا


اسے آتا تھا لفظوں کا برتنا
زباں رکھتا تھا وہ اہل زباں تھا


اخوت کا تھا وہ پرچم اٹھائے
نہ اپنی فکر نہ خوف جہاں تھا


چٹاں کا عزم دھارے کی روانی
جھکا قدموں پہ اس کے آسماں تھا


جو سب چپ چاپ سہہ لیتے ہیں صدمے
وہ ان سب بے زبانوں کی زباں تھا


وطن اس کی رگ و جاں میں بسا تھا
وہ دل دلی کا خود ہندوستاں تھا


اسے ڈھونڈے گا اب راغبؔ زمانہ
کہ اس جیسا زمانے میں کہاں تھا