جدائی وطن
آج وہ وقت جدائی مجھے یاد آیا ہے
دل افسردہ ہر اک یاد سے بھر آیا ہے
غیر ممکن ہے مری آنکھ سے آنسو نہ بہیں
ضبط دل اب تو ہر اک حد سے گزر آیا ہے
زندگی ہم کو یہ معلوم نہ تھا تیرے لیے
اپنی ہنستی ہوئی دنیا کو رلانا ہوگا
جن کو دل دیکھ نہ سکتا تھا کبھی افسردہ
آج اس دل نے انہیں اشک بہاتے دیکھا
ماں کی ممتا نے بھی للکارا جھنجھوڑا مجھ کو
باپ نم دیدہ کھڑا دور سے تکتا تھا مجھے
اور اک کونے میں وہ دور کھڑی جان حیات
اپنے افسردہ سے چہرے پہ جو ڈالے تھی نقاب
میں نے چاہا کہ اسے بڑھ کے تسلی دے دوں
سل گئے ہونٹ زباں ہو گئی ساکت میری
میں نہ کچھ بول سکا اور نہ کچھ سن پایا
میری نظروں نے نہ جانے کہا کیا کیا اس سے
کتنے وعدے کیے اور کتنی اٹھائیں قسمیں
صبح نو پھوٹ رہی تھی کہ وطن چھوٹ گیا
دیکھتے دیکھتے خوابوں کا فسوں ٹوٹ گیا