وہ واقعات کسے یاد اک زمانہ ہوا
وہ واقعات کسے یاد اک زمانہ ہوا
کسی نے کیا نہ کیا اور ہم پہ کیا نہ ہوا
مرا برا تو مرے حسب مدعا نہ ہوا
بھلا ہوا بھی تو کوئی مرا برا نہ ہوا
دکھاتے ہم دل پر داغ کی بہار اسے
یہ منظر اور ذرا سا بھی خوش نما نہ ہوا
کسی کا درد محبت اگر تھا کم مایہ
تو ٹھہر ٹھہر کے پھر کیوں ذرا ذرا نہ ہوا
ترا ارادہ مبارک تجھے مگر اے دل
یہ نقش پا اگر اس کا ہی نقش پا نہ ہوا
ستم کرے بھی تو سمجھوں کہ یہ ستم ہی نہیں
خفا ہوا بھی تو جانوں کہ تو خفا نہ ہوا
کیا جب آنے کا اقرار آپ بھول گئے
یہ ایک وعدہ تو شاید کبھی وفا نہ ہوا
زمانہ آپ کو عاشق نواز کہتا ہے
یہ سچ بھی ہو تو کبھی ہم کو کچھ عطا نہ ہوا
وہ کیا کہیں گے جو اقبال ہی نہ ہو مجھ کو
وہ کیا کریں گے جو میں قابل خطا نہ ہوا
اگرچہ شیخ میں لاکھوں کرامتیں آئیں
مگر یہ بندے کا بندہ رہا خدا نہ ہوا
رضائے دوست کے ہوتے ہیں اور کیا معنی
کہ مجھ سے ان کا کبھی آج تک گلا نہ ہوا
وہ خود ملے تو بتا کیا جواب دوں اے دل
یہ عذر لنگ ہے کوئی بھی رہنما نہ ہوا
صفیؔ نصیب برے ہوں تو کیا کرے کوئی
نہیں تو قیس بھی کچھ آدمی برا نہ ہوا