طبیعت بجھ گئی جب سے ترے دیدار کو ترسے

طبیعت بجھ گئی جب سے ترے دیدار کو ترسے
اگر اب نیند بھی آتی ہے اٹھ جاتے ہیں بستر سے


ہمیں معشوق کو اپنا بنانا تک نہیں آتا
بنانے والے آئینہ بنا لیتے ہیں پتھر سے


زباں سے آہ نکلی دل سے نالہ آنکھوں سے آنسو
مگر اک تیری دھن ہے جو نکلتی ہی نہیں سر سے


ارے نادان سچا چاہنے والا نہیں ملتا
وو لیلیٰ تھی کہ جس کو مل گیا مجنوں مقدر سے


ملن ساری بھی سیکھو جب نگاہ ناز پائی ہے
مری جاں آدمی اخلاق سے تلوار جوہر سے


خدا کی شان مطلب آشنا ایسے بھی ہوتے ہیں
بتوں نے بن کے بت سجدہ کرایا پہلے بت گر سے


صفیؔ کو مسکرا کر دیکھ لو غصہ سے کیا حاصل
اسے تم زہر کیوں دیتے ہو جو مرتا ہے شکر سے