وہ تنہا میرے ہی درپئے نہیں ہے
وہ تنہا میرے ہی درپئے نہیں ہے
کسی سے خوش ہو یہ بھی طے نہیں ہے
یہاں کی مسندیں سب کے لیے ہیں
یہ میرا گھر ہے قصر کے نہیں ہے
ابھی غنچہ ابھی گل اور ابھی تخم
تو کیوں کہیے کہ ہستی ہے نہیں ہے
تغیر ارتقا دستور فطرت
نہ بدلے جو وہ کوئی شے نہیں ہے
مگس کی خاک پا نطفہ عنب کا
کشید گل مگس کی قے نہیں ہے
وہ کیسی شخصیت جس میں نہ ہو روح
وہ کیسا شیشہ جس میں مے نہیں ہے
وہ کیا جھرنا نہ جس سے راگ پھوٹے
وہ کیسا نغمہ جس میں لے نہیں ہے
وہ پھیکا وعظ جس میں کرب معدوم
وہ جھوٹا ساز جس میں نے نہیں ہے
وہ کیسی بزم جس میں سب ہوں گونگے
وہ جنت کیا جہاں ہر شے نہیں ہے
وہ کیا وامقؔ جو نچلا بیٹھ جائے
وہ کیسا فاصلہ جو طے نہیں ہے