وہ نکلے تھے مثال طوفاں تپتے ریگزاروں سے
وہ نکلے تھے مثال طوفاں تپتے ریگزاروں سے
چمکتی جن کی پیشانی تھی گردوں کے ستاروں سے
لیے قرآن کا نسخہ سجا کر اپنے سینوں میں
نکل آئے وہ طفل وقت آگے شہسواروں سے
ابھی تک ابن آدم ہاں اسی حیرت میں کھویا ہے
لڑے تھے تین سو تیرہ بھلا کیسے ہزاروں سے
ہوئے جو غوطہ زن عشق محمد میں سنو غازیؔ
ہوئی نہ پھر کبھی ان کی شناسائی کناروں سے