غم ہجراں سے اے جان جہاں ہم بن سنور نکلے

غم ہجراں سے اے جان جہاں ہم بن سنور نکلے
ستم تیری جدائی کے سبھی ہی بے اثر نکلے


خدا تیرے جنہیں اپنی خدائی پر تکبر تھا
ہٹا جو رخ سے پردہ تو پس پردہ بشر نکلے


مگر آساں نہیں تھے سب بھلا دینے کے رنج و غم
گماں تیرے در دل سے لہو میں ڈوب کر نکلے


جو دکھتے تھے بجا رہ پر وہی گمراہ تھے ناداں
جو بھٹکے بھولے لگتے تھے وہی پسر خضر نکلے


کہ کچھ گھنٹوں کی مدہوشی سے کیا ہوتا ہے اے ساقی
پلا ایسی کہ مدہوشی میں ہی ساری عمر نکلے


سجایا ہے جسے دل نے لبوں پر مسکراہٹ میں
اگر بہہ جائے آنکھوں سے تو پس خون جگر نکلے


کیا ان کو متاع عشق نے ہر بار پھر زندہ
جو عاشق دار یاراں سے اگر نکلے تو مر نکلے