کار اہل وفا جہد و تسلیم ہے ہم بھی تسلیم میں کیا تأمل کریں
کار اہل وفا جہد و تسلیم ہے ہم بھی تسلیم میں کیا تأمل کریں
ذات کے دشت کتنے ہی درپیش ہیں کیا کریں گے اگر پھر تساہل کریں
اے صریر قلم اے ضمیر جہاں آپ اپنی زباں میں جو لکھنا ہو لکھ
کتنے احوال ہیں نا نوشتہ ابھی کیا مناسب ہے ان سے تغافل کریں
ہم پریشان و آشفتہ لوگوں میں بھی اک زمانہ ہوا ایک دھیرج سا تھا
اب تو ہم ایسے لوگوں کی خواہش بھی ہے کو و برزن میں جا تا بہ شب غل کریں
میرے الفاظ میں میرا خون جگر کیسے کیسے جھلکتا ہے دیکھیں کبھی
ساز عشق و ہوس گو ہم آہنگ ہیں پھر بھی عشق و ہوس میں تقابل کریں
اب تو اہل ہنر ایک ہی راستہ آپ ایسوں کی خاطر کھلا ہے ابھی
ہر عطاے زماں پر تشکر کریں ہر جفاے جہاں کا تحمل کریں
کہنا سننا بھی اک وضع تہذیب ہے کہنے سننے میں نقص مراتب نہیں
اک ذرا چپ رہیں ہم بھی گلزار میں پاس رسم حکایات بلبل کریں
ٹوٹتی ہیں روایات مینا و مے کیا کریں گے عوض میں مقامات کے
اہل تدبیر ابھی وقت تدبیر ہے آئیں اور اہتمام تسلسل کریں
وہ جو ارباب دانش ہیں ان کے لئے اک نصاب عمل سوجھتا ہے مجھے
کیا ہیں وہ اور کیا ہے یہ نظم جہاں کچھ تفکر کریں کچھ تأمل کریں