مجھے تو یہ بھی فریب حواس لگتا ہے
مجھے تو یہ بھی فریب حواس لگتا ہے
وگرنہ کون اندھیروں میں ساتھ چلتا ہے
بکھر چکی جرس کاروان گل کی صدا
اب اس کے بعد تو واماندگی کا وقفہ ہے
جو دیکھیے تو سبھی کارواں میں شامل ہیں
جو سوچئے تو سفر میں ہر ایک تنہا ہے
کسے خبر کہ یہ دوری کا بھید کیا شے ہے
قدم اٹھاؤ تو رستہ بھی ساتھ چلتا ہے
ابھر رہے ہیں جو منظر فریب منظر ہیں
جو کھل رہا ہے دریچہ تو وہم اپنا ہے
طلب تو کر کسے معلوم کامگار بھی ہو
زمانہ عیب و ہنر اب کہاں پرکھتا ہے
تری صدا ہے کہ ظلمت میں روشنی کی لکیر
ترا بدن ہے کہ نغموں کا دل دھڑکتا ہے
اداسیوں کو نہ چھونے دے پھول سا پیکر
ابھی کچھ اور تجھے اہل غم پہ ہنسنا ہے
مری وفا پہ بھی اے دوست اعتبار نہ کر
مجھے بھی تیری طرح سب سے پیار کرنا ہے
یہ پوچھنا ہے کہ غیروں سے کیا ملا تجھ کو
تری جفا کی شکایت تو کون کرتا ہے
چمن چمن ہے اگر گل فشاں تو کیا کیجے
ہمیں تو اپنے خرابے کو ہی پلٹنا ہے
یہ ایک چاپ جو برسوں میں سن رہا ہوں میں
کوئی تو ہے جو یہاں آ کے لوٹ جاتا ہے