کس طرح لب پہ ہنسی بن کے فغاں آتی ہے
کس طرح لب پہ ہنسی بن کے فغاں آتی ہے
مجھ سے پوچھو مجھے پھولوں کی زباں آتی ہے
زہر غم پیجے تو الفاظ میں رس آتا ہے
دل کو خوں کیجے تو افکار میں جاں آتی ہے
خیر ہو دل کی کہ پھر لے وہی چھیڑی اس نے
جیسے کشتی کی طرف موج رواں آتی ہے
شکن زلف بھی ہے حسن طرب میں گویا
کھنچ کے ہر تان میں تصویر بتاں آتی ہے
بات وہ ہے جو لب لعل نگاراں سے چلے
خوں بھی ہو دل تو یہ تاثیر کہاں آتی ہے
پھر نظر آتی ہے محراب حرم خالی سی
پھر وہی یاد بتاں آفت جاں آتی ہے
خوش اداؤں کے سخن ایک ہی سارے حقیؔ
ان کو یورپ میں بھی دلی کی زباں آتی ہے