قدرت کے تماشے

پھول کھلے ہیں رنگ برنگے
گملوں میں جو بیج تھے بوئے
ان میں سے کچھ پودے پھوٹے
کچھ کو گملوں ہی میں چھوڑا
کچھ کو کیاری میں جا بویا
ان پہ پڑیں پانی کی پھواریں
جھوم اٹھی پودوں کی قطاریں
روز بڑھیں وہ انگل انگل
پھیلیں پتیاں ابھرے ڈنٹھل
ان میں سے پھر کلیاں پھوٹیں
رنگوں کی پچکاریاں چھوٹیں
وہ جو شام کو اک کلی تھی
صبح ہوئی تو پھول بنی تھی
مٹی میں تو کچھ بھی نہیں تھا
دانہ ہی بس اک بویا تھا
آئے کہاں سے پھول یہ پیارے
اتنے اچھے اتنے پیارے
مٹی میں سے پیڑ ابھرے ہیں
شاخوں میں سے پھول کھلے ہیں
پھول کھلے ہیں رنگ برنگے
ہیں یہ سب قدرت کے تماشے