Swapnil Tiwari

سوپنل تیواری

سوپنل تیواری کے تمام مواد

29 غزل (Ghazal)

    ہوا باتوں کی جو چلنے لگی ہے

    ہوا باتوں کی جو چلنے لگی ہے سو اک افواہ بھی اڑنے لگی ہے ہم آوازوں سے خالی ہو رہے ہیں خلا میں ہوک سی اٹھنے لگی ہے کہاں رہتا ہے گھر کوئی بھی خالی ان آنکھوں میں نمی رہنے لگی ہے ہوئی بالغ مری تنہائی آخر کسی کی آرزو کرنے لگی ہے مسلسل روشنی کی بارشوں سے نظر میں کائی سی جمنے لگی ہے

    مزید پڑھیے

    میرے ہونٹوں کو چھوا چاہتی ہے

    میرے ہونٹوں کو چھوا چاہتی ہے خامشی! تو بھی یہ کیا چاہتی ہے میرے کمرے میں نہیں ہے جو کہیں اب وہ کھڑکی بھی کھلا چاہتی ہے زندگی! گر نہ ادھیڑے گی مجھے کس لئے میرا سرا چاہتی ہے سارے ہنگامے ہیں پردے پر اب فلم بھی ختم ہوا چاہتی ہے کب سے بیٹھی ہے اداسی پہ میری یاد کی تتلی اڑا چاہتی ...

    مزید پڑھیے

    ہاں دھنک کے رنگ سارے کھل گئے

    ہاں دھنک کے رنگ سارے کھل گئے مجھ پہ تیرے سب اشارے کھل گئے ایک تو ہم کھیل میں بھی تھے نئے اس پہ پتے بھی ہمارے کھل گئے جھیل میں آنکھوں کی تم اترے ہی تھے اور خوابوں کے شکارے کھل گئے نرم ہی تھی یاد کی ہر پنکھڑی پھر بھی میرے زخم سارے کھل گئے مجھ کو جکڑے تھے کئی بندھن مگر تیرے بندھن ...

    مزید پڑھیے

    مرے گھر میں نہ ہوگی روشنی کیا

    مرے گھر میں نہ ہوگی روشنی کیا نہیں آؤ گے اس جانب کبھی کیا چہکتی بولتی آنکھوں میں چپی انہیں چبھنے لگی میری کمی کیا خود اس کا رنگ پیچھا کر رہے ہیں کہیں دیکھی ہے ایسی سادگی کیا لپٹتی ہیں مرے پیروں سے لہریں مجھے پہچانتی ہے یہ ندی کیا میں اس شب سے تو اکتایا ہوا ہوں سحر دے پائے گی ...

    مزید پڑھیے

    وہ جہاں ہیں وہیں خیال مرا

    وہ جہاں ہیں وہیں خیال مرا مستقل ہو گیا وصال مرا پیار سے دیکھا پھر مجھے اس نے پھر سے عہدہ ہوا بحال مرا وہ جو پاگل تھا اب وہ کیسا ہے ایسے وہ پوچھتا ہے حال مرا اپنی یادوں کی روشنی کم کر اس نے سونا کیا محال مرا میں ہی آؤں گا اپنے رستے میں میرے بھیتر سے ڈر نکال مرا ساتھ میرے گھسٹتا ...

    مزید پڑھیے

تمام