وہ لاکھ پوچھے اگر تجھ سے خیریت میری

وہ لاکھ پوچھے اگر تجھ سے خیریت میری
نہ کہنا اس سے صبا تو یہ کیفیت میری


میں ایک لمحہ ہوں گزرے ہوئے زمانے کا
تمہیں خبر ہی نہیں کیا ہے اہمیت میری


میں ڈوبا رہتا ہوں فکر سخن کے دریا میں
کوئی تو دیکھے ذرا آ کے محویت میری


تمہارے پیار نے مشہور کر دیا ورنہ
میں اک غریب بھلا کیا ہے حیثیت میری


پئے ہیں شکر ادا کرکے صبر کے ساغر
ہوئی ہے سایۂ صابر میں تربیت میری


میں اپنی ماں کے قدم چوم کر نکلتا ہوں
اسی لئے تو چمکتی ہے شخصیت میری


ضرور مجھ میں چھپا ہے جمیلؔ وہ آ کر
بنی ہے رشک کے قابل جو شخصیت میری