خوشبو ہمارے پیار کی ہر سو بکھر تو جائے

خوشبو ہمارے پیار کی ہر سو بکھر تو جائے
بستی سے اختلاف کا طوفاں گزر تو جائے


میرا یقین ہے اسے مل جائے گا سکوں
طوفان میری کشتی میں دو پل ٹھہر تو جائے


تنقید و تبصرہ کوئی کچھ بھی کرے تو کیا
میری غزل جناب کے دل میں اتر تو جائے


اس سے لپٹ کے روئیں گی ساری اداسیاں
شام غم فراق کبھی میرے گھر تو جائے


پھر جائے وہ خلاؤں میں تحقیق کے لئے
اپنے بدن کے غار میں پہلے اتر تو جائے


ہے ان کی تربیت پہ نظر اس لئے مری
بچوں میں میری ذات کا تھوڑا اثر تو جائے


سمجھا نہ اس کی پیاس کو اب تک کوئی یہاں
دریا کی تہہ میں کاش کسی کی نظر تو جائے


یہ یاترا بھی امن کی دشمن نہ ہو کہیں
لوگوں کے دل سے پہلے یہ خوف و خطر تو جائے


کہتے تھے یہ جمیلؔ سے کل مصطفیٰ جمیلؔ
میری نظر سے آگے کسی کی نظر تو جائے