وہ خود کو ریشمی کپڑوں سے اہل زر سمجھتے ہیں
وہ خود کو ریشمی کپڑوں سے اہل زر سمجھتے ہیں
سرابوں کی چمک کو جھیل کا منظر سمجھتے ہیں
ادب کے آسماں پر ہے ستاروں تک چمک جن کی
انہیں منزل نہیں ہم میل کا پتھر سمجھتے ہیں
مرے بچے بہل جاتے ہیں کاغذ کے کھلونوں سے
غریبی کے تقاضے کیا ہیں وہ بہتر سمجھتے ہیں
چٹائی پر ہی میٹھی نیند سو جاتے ہیں محنت کش
اسے کمخواب کا آرام وہ بستر سمجھتے ہیں
سمندر اپنے آپے سے کبھی باہر نہیں ہوتا
مگر بارش میں نالے خود کو ہی برتر سمجھتے ہیں
ہم اپنے فکر و فن سے اس میں گل بوٹے کھلائیں گے
زمیں کچھ سخت ہے تو نا سمجھ بنجر سمجھتے ہیں