آج یوں ہی ہم سے وہ شکوہ گلہ کرنے لگے
آج یوں ہی ہم سے وہ شکوہ گلہ کرنے لگے
لوگ اس پر جانے کیا کیا تبصرہ کرنے لگے
وہ مری معصومیت کے معترف ہو جائیں گے
اپنے دل کو سنگ سے جو آئنہ کرنے لگے
چاند جب نکلا تو جانے کون یاد آیا ہمیں
ہم اچانک جانے کس کا تذکرہ کرنے لگے
عیب خود میں دوسروں میں خوبیاں آئیں نظر
ہم جو اپنی زندگی کا تجزیہ کرنے لگے
ڈھنگ سے چلنا زمیں پر آج تک آیا نہیں
گو خلا میں مرتسم ہم نقش پا کرنے لگے
خود کو انساں کے نشانے سے بچائیں کس طرح
جانور آدم گزیدہ مشورہ کرنے لگے
دشمنوں نے آج جو دیکھا مرا حسن سلوک
وہ وفاؔ اپنا نشانہ خود خطا کرنے لگے