وہ جا چکے ہیں مگر خلفشار باقی ہے

وہ جا چکے ہیں مگر خلفشار باقی ہے
جو انتظار تھا وہ انتظار باقی ہے


بس اتنی بات مرے شہر یار باقی ہے
کہ نشہ ٹوٹ چکا ہے خمار باقی ہے


جنوں کی لمحہ شگافی سے صدیاں پھوٹ پڑیں
اب ان کا ایک نیا اختصار باقی ہے


عجب ہیں کھیل محبت کی بے نیازی کے
کہ آگ بجھ بھی چکی ہے شرار باقی ہے


ہم اپنا لمحۂ ہستی ابد بنا لائے
نئے ازل کا مگر انتظار باقی ہے