وہ ہوا ہی نہیں جو سوچا تھا
وہ ہوا ہی نہیں جو سوچا تھا
میرا ہو کر بھی کب وہ میرا تھا
وہ تصور کے جال میں الجھا
دھندھ سا اک اداس چہرہ تھا
ہر گھڑی اس کے گھر کا دروازہ
میری خاطر کھلا ہی رہتا تھا
چھین لی اس نے میری بینائی
میں نے اک خواب ہی تو دیکھا تھا
اس کو بھی لگ گئی خزاں کی نظر
شاخ پر آخری جو پتہ تھا
رت جگے کی تھکی تھکی آنکھیں
سوچتی ہوں وہ کتنا تنہا تھا
ایک برگد کا پیڑ تھا اس پر
ایک آسیب تھا جو لٹکا تھا