زندگی کی یہی کہانی ہے

زندگی کی یہی کہانی ہے
سانس آنی ہے اور جانی ہے


تم جو ہوتے تو بات کچھ ہوتی
اب کہ بارش تو صرف پانی ہے


اک طرف اس کی بولتی آنکھیں
اک طرف میری بے زبانی ہے


یوں ہی سنتے رہیں اگر دل کی
یاد رکھئے کہ جان جانی ہے


دھوپ لگتی ہے بادلو جیسی
یہ محبت کی سائبانی ہے


بہتی جاتی ہوں اک سمندر میں
اس کی یادو کی بادبانی ہے


ہر طرف خار خار ہے گلشن
باغباں خوب باغبانی ہے


آشنا ہوں میں اب سرابوں سے
میں نے صحرا کی خاک چھانی ہے


چاندنیؔ کی غزل وزل صاحب
اس کے خوابوں کی ترجمانی ہے