وہ ایک شخص جو اتنا اداس لگتا ہے

وہ ایک شخص جو اتنا اداس لگتا ہے
نہ جانے کیوں وہ مرے دل کے پاس لگتا ہے


چمن میں رنگ فضاؤں نے جب سے ہے بدلا
ہر ایک چہرے پہ خوف و ہراس لگتا ہے


یوں غور‌ و فکر کے دریا میں پی چکا پھر بھی
مرا وجود کیوں صدیوں کی پیاس لگتا ہے


مرا رفیق بھی اب جا ملا رقیبوں سے
بہت ذہین ہے موقع شناس لگتا ہے


دھڑکنے دل جو لگا بیکلی سی ہے طاری
جگر کے کونے میں ان کا نواس لگتا ہے


خبر ہے گرم کہ محفل میں وہ بھی آئیں گے
یقین کم ہے زیادہ قیاس لگتا ہے


ہو روح کھوکھلی تاریک ہو ضمیر اگر
بدن بھی دیکھیے خالی گلاس لگتا ہے


برہنہ کون نہیں ہے یہاں پہ اے عمرانؔ
اگرچہ جسم پہ سب کے لباس لگتا ہے