تلاش رزق میں جس نے ذرا اچھا برا سمجھا
تلاش رزق میں جس نے ذرا اچھا برا سمجھا
تو پھر اس نے حقیقت میں خدا کو بھی خدا سمجھا
وہ خلوت میں وہ جلوت میں کہاں اس سے چھپے گا تو
اگر تو یہ نہیں سمجھا بتا دے پھر کہ کیا سمجھا
ہمارا خون شامل ہے وطن کے ذرے ذرے میں
مگر افسوس کہ اہل وطن نے بے وفا سمجھا
بیان حسن شاعر کے تخیل کا کرشمہ ہے
کبھی زلفوں کو وہ ناگن کبھی کالی گھٹا سمجھا
گنوا دی جان عمراںؔ نے ہے جس کی جان کی خاطر
وہ اس کی موت کو پھر بھی فقط اک حادثہ سمجھا