وہ درد دل بھی نہیں چشم خوں فشاں بھی نہیں

وہ درد دل بھی نہیں چشم خوں فشاں بھی نہیں
کبھی جو تھا وہ اب انداز گلستاں بھی نہیں


علاج درد محبت تو کر نہیں سکتے
تمہارے قبضے میں کیا مرگ ناگہاں بھی نہیں


وہ اس مقام سے گزرے ہیں دل یہ کہتا ہے
جھکا ہے سر کہ جہاں کوئی آستاں بھی نہیں


اسی چمن میں کئی بار شعلے بھڑکے ہیں
مری نوا کا کوئی اب مزاج داں بھی نہیں


سکوت کتنے مراحل کے بعد آتا ہے
وہ مطمئن ہیں مرے لب پہ اب فغاں بھی نہیں


یہ اور بات قفس میں گزار دوں دن رات
مرا مقام تو ورنہ یہ گلستاں بھی نہیں


شب فراق میں اندیشۂ سحر کیسا
یہ وہ زمیں ہے جہاں کوئی آسماں بھی نہیں