وہ بزم غیر میں باصد وقار بیٹھے ہیں

وہ بزم غیر میں باصد وقار بیٹھے ہیں
ہم ان کے گھر ہمہ تن انتظار بیٹھے ہیں


شبیہ زلف پریشاں جو ہم بنانے لگے
رکے ہیں الجھے ہیں بگڑے ہیں یار بیٹھے ہیں


جسے خیال کیا عشق سے نہیں خالی
تمام طالب دیدار یار بیٹھے ہیں


ہم اس کی بزم میں ہیں سنگ فرش کے مانند
یہ جبر بیٹھے ہیں بے اختیار بیٹھے ہیں


وہ رشک مہر ہے اے مہرؔ چرخ چارم پر
ہم اضطراب میں کیوں ذرہ دار بیٹھے ہیں