وہ بہت بیقرار ہے شاید
وہ بہت بیقرار ہے شاید
اس کو بھی انتظار ہے شاید
نفرتیں سر سے پاؤں تک دیکھیں
دل میں تھوڑا سا پیار ہے شاید
کر کے طے مرحلے اداس تھا وہ
جیب میں اس کی ہار ہے شاید
زندگی آخری ٹھکانے پر
قابل اعتبار ہے شاید
غم بھی پھل پھولتا ہے آئے دن
شجر سایہ دار ہے شاید
میرے رونے پہ کوئی بات نہ کی
آج وہ سوگوار ہے شاید
گفتگو میں نہ مجھ سے جیت سکا
اس لئے شرمسار ہے شاید
جس کو دیکھوں وہ گرتا پڑتا ہے
ہر طرف انتشار ہے شاید
کج کلاہی تمہاری ایرجؔ جی
باعث افتخار ہے شاید