وہ آسماں ہے تو ہو میں زمین ہوں خوش ہوں

وہ آسماں ہے تو ہو میں زمین ہوں خوش ہوں
انا کے شہر میں جب سے مکین ہوں خوش ہوں


یہ جانتی ہوں کے رہتے ہیں سانپ اس میں مگر
ابھی بھی پہنے وہی آستین ہوں خوش ہوں


خزاں کے دشت میں جشن بہار بھی ہوگا
نہ جانے کس لیے یوں پر یقین ہوں خوش ہوں


سنا ہے چھوڑ کے مجھ کو وہ کچھ اداس سا ہے
میں اس کی یاد کی اب تک امین ہوں خوش ہوں


زمانہ ظاہری صورت میں عیب ڈھونڈھتا ہے
مجھے گماں ہے کہ دل سے حسین ہوں خوش ہوں


وہ آفتاب ہے چرچا ہے چار سو اس کا
میں اک چراغ ہوں گوشہ‌ نشین ہوں خوش ہوں


حناؔ پہ رنگ عبادت فقط خدا کا رہا
وہ سجدہ ریز منور جبین ہوں خوش ہوں