یقیں کی حد سے جو نکلے گمان تک پہنچے
یقیں کی حد سے جو نکلے گمان تک پہنچے
تخیلات کی اونچی اڑان تک پہنچے
اسے بھی تھوڑا سا احساس ظلم ہو جائے
پلٹ کے تیر کوئی گر کمان تک پہنچے
نہ وہ ہی پڑھ سکا آنکھوں میں میری حال میرا
نہ لفظ دل کے ہی میری زبان تک پہنچے
بھلا یہ فن ہے کے حاصل ریاض سے ہو جائے
کبھی تو کوئی دعا آسمان تک پہنچے
عجب سی بے حسی مٹی کے اس مکان میں تھی
سو جسم چھوڑ دیا لا مکان تک پہنچے
کتاب زیست کے اوراق کھل اٹھے جس دم
وہ پڑھتے پڑھتے مری داستان تک پہنچے