وہ آئیں گے تو کھلیں گے نشاط وصل کے پھول

وہ آئیں گے تو کھلیں گے نشاط وصل کے پھول
شب فراق میں ان کی سخاوتوں کو نہ بھول


یہی ہے کیا تری تقسیم گلستاں کا اصول
کسی کو پھول ملیں اور کسی کو خار ببول


زمیں کا رنگ تو ہم رنگ دام ہوتا ہے
بھٹک نہ جائیں کہیں میری چاہتوں کے رسول


تمہارے پاس تو سم سم کا اسم اعظم ہے
یہ کیا کہ بند ہے اپنے لیے ہی باب قبول


کسی کا دیدۂ خونیں بھی رنگ لا نہ سکا
کسی کے شعلۂ تن سے پگھل گئے ہیں اصول


بجھائیں پیار محبت کے شبنمستاں سے
نہ بیٹھ جائے گل جاں پہ نفرتوں کی یہ دھول


بھری بہار میں جیسے پھوار پڑتی ہے
کچھ اس طرح مرے دل پر ہے شاعری کا نزول


الجھ گئے کبھی سنگیں حقیقتوں سے جمیلؔ
کبھی کسی کے تصور سے ہو گئے ہیں ملول