جرم تیرا نہ سہی میری سزا خوب سہی

جرم تیرا نہ سہی میری سزا خوب سہی
آئنہ خانۂ ہستی کی ادا خوب سہی


پاس سے تو تری آنکھوں کے بھنور لے ڈوبے
دور سے جلوۂ گرداب بلا خوب سہی


کیسا ساون ہے کہ جو کھل کے برستا ہی نہیں
دیکھنے میں تری زلفوں کی گھٹا خوب سہی


گھر میں جو بات ہے وہ تیرے شبستاں میں کہاں
جان یاراں تیرے کوچے کی ہوا خوب سہی


ذوق جلوت میں تب و تاب حقیقت بھی تو ہے
شوق خلوت کدۂ ساز و صدا خوب سہی


دن کو صحرا میں بگولوں کا سفر بھی دیکھو
صبح دم باغ میں یہ رقص صبا خوب سہی


سر زمینیں ہیں بہت روح کے پاتال میں بھی
ماہ و مریخ پہ آواز درا خوب سہی


دوست زندان عناصر سے رہائی معلوم
دشت امکان تخیل کی فضا خوب سہی


وسعتیں اور بہت ہیں غم دوراں کے لئے
قبلۂ جاں کے لئے قبلہ نما خوب سہی


خوب تر ہے مری تزئین سے ہر پیکر جاں
تیری تخلیق کا ہر نقش بقا خوب سہی


پاؤں میں اپنا ہی سایہ ہے پریشان جمیلؔ
سر پہ دستار پر و بال ہما خوب سہی