سامان ہے اس درجہ انبار سے سر پھوڑو

سامان ہے اس درجہ انبار سے سر پھوڑو
دیدار کرو چھت کا دیوار سے سر پھوڑو


دریا کے مسافر کو ساحل کی تمنا کیوں
گرداب سے تم الجھو منجھدار سے سر پھوڑو


آغوش میں ٹی وی کی ہر شام کرو کالی
ہر صبح اسی باسی اخبار سے سر پھوڑو


دنیا کے تکبر سے تم بعد میں ٹکرانا
فی الحال میاں اپنے پندار سے سر پھوڑو


مت دیکھ کے گھبراؤ لوگوں سے پٹی سڑکیں
بہتر ہے اسی رشک کہسار سے سر پھوڑو


کومل ہیں رگیں اس کی نازک ہے بدن سوربھؔ
آرام سے دھیرے سے اب پیار سے سر پھوڑو