وصل سے اور ہجر سے ہے تنگ

وصل سے اور ہجر سے ہے تنگ
دل نے سیکھے ہیں کچھ عجیب ہی ڈھنگ


اب نہ زنجیر ہے نہ زنداں ہے
اب نہ دیوار ہے نہ ہاتھ میں سنگ


اب نہ دل میں وو یاسمیں رو ہے
اب نہ آنکھوں میں وہ مہکتے رنگ


اب نہ وہ عشق میں کشاکش ہے
اب نہ وہ زندگی میں ہے آہنگ


جیتتا جا رہا ہوں عشق کا کھیل
ہارتا جا رہا ہوں زیست کی جنگ


چپکے سے تیرا غم چلا آیا
ہو رہا تھا میں کائنات پہ دنگ


شعر کہنا ہے زندگی کرنا
اور دونوں ہیں مجھ کو باعث ننگ