وقت کی دہلیز پر بیٹھے ہیں جانے کے لئے

وقت کی دہلیز پر بیٹھے ہیں جانے کے لئے
منتظر ہیں موت کے آرام پانے کے لئے


کیا لکھوں جو زندگی اپنی کہانی کہہ گئی
لفظ لاؤں میں کہاں سے اس فسانے کے لئے


جو بنایا تھا کبھی وہ گھر بکھر کر رہ گیا
ہم ترستے ہی رہے اس آشیانے کے لئے


محفل جام و سبو میں اب کہاں وہ رونقیں
اب کہاں انداز ساقی ہے دکھانے کے لئے


زیب دیتا ہی نہیں ہر بات پر یوں روٹھنا
کیا کریں جائیں گے پھر ان کو منانے کے لئے


زندگی کی الجھنوں میں ہر کوئی مصروف ہے
اشکؔ کس کے پاس بیٹھیں دل لگانے کے لئے