وحشت میں سوئے دشت جو یہ آہ لے گئی
وحشت میں سوئے دشت جو یہ آہ لے گئی
کیا کیا کنوئیں جھکانے تری چاہ لے گئی
آئے کبھی نہ راہ پہ کیا جانیے ہمیں
کیدھر کو یہ طبیعت گمراہ لے گئی
کعبے میں بھی گئے تو ہمیں تیری یاد آہ
پھر سوئے دیر اے بت دل خواہ لے گئی
اس نے کہاں بلایا تھا یہ اس کے گھر ہمیں
ناحق زبان خلق کی افواہ لے گئی
جاروب کش نے اس کے نہ رہنے دیا مجھے
گرداں نسیم شکل پر کاہ لے گئی
جوں تیر دل سے آہ جو نکلے تو کیا کہوں
بس جان کو بھی اپنے وہ ہم راہ لے گئی
آصفؔ چمن میں آتے ہی اس رشک گل کی یاد
کیا جانیے کدھر مجھے ناگاہ لے گئی