طالب ہو وہاں آن کے کیا کوئی صنم کا

طالب ہو وہاں آن کے کیا کوئی صنم کا
ہو جس کو بھروسہ نہ جہاں ایک بھی دم کا


کیا میں تجھے احوال دل و جاں کا بتاؤں
اب میں تو ارادہ کیے بیٹھا ہوں عدم کا


کی لاکھوں ہیں تدبیر میاں ہم نے وہ لیکن
چھوٹا نہ یہ دل باندھا ہوا زلف کے خم کا


یا وصل ہو یا موت کوئی طرح تو ہووے
کب تک رہوں پامال میں اس درد و الم کا


جلنے نہ دیا آتش غم سے جگر و دل
کیا کیا کہوں احسان میں اس دیدۂ نم کا


آیا جو نشہ مے کا تو شب آنکھ میں اس کی
سو رنگ سے بد مستی کا رنگ آن کے چمکا


وصل اس کا میسر نہیں سچ کہتا ہے آصفؔ
کیوں اپنے تئیں رکھتا ہے مصروف تو غم کا