نامہ ترا میں لے کر منہ دیکھ رہ گیا تھا

نامہ ترا میں لے کر منہ دیکھ رہ گیا تھا
کیا جانیے کہ قاصد کیا مجھ کو کہہ گیا تھا


کوچے سے اپنے تو نے مجھ کو عبث اٹھایا
سب تو چلے گئے تھے اک میں ہی رہ گیا تھا


پہلے جو آنسو دیکھا لوہو سا لال تم نے
ناصح وہ دل ہمارا خوں ہو کے بہہ گیا تھا


کچھ بھی نہ سوجھتا تھا اس بن مجھے تو آصفؔ
جس دن ستی یہاں سے وہ رشک مہ گیا تھا