وہی دوراہا وہی کشمکش کدھر جائیں
وہی دوراہا وہی کشمکش کدھر جائیں
جہاں کے ساتھ کہ پھر دل کی راہ پر جائیں
کھلا سکیں نہ کوئی پھول ہم اگر نہ سہی
چمن سے جاتے ہوئے خار کم تو کر جائیں
چراغ جوش ہوائے بلاغ نے پھونکا
نہ جانے عمر کے ساتھ اور کیا ہنر جائیں
کیوں آنکھوں آنکھوں تلک سلسلہ رہے محدود
آ ایک دوسرے کے دل میں ہم اتر جائیں
دیا تھا حکم یہ جیسے کسی نے آندھی کو
کہ صرف کچے مکانوں کے بام و در جائیں