افق کو تکتی ہیں مدت سے بے شمار آنکھیں

افق کو تکتی ہیں مدت سے بے شمار آنکھیں
سحر کا خواب لیے سب امیدوار آنکھیں


میں جانتا ہوں کہ ہرگز نہ آئے گا اب وہ
نبھائے جاتی ہیں پر فرض انتظار آنکھیں


وہ دیکھ پائے زمانہ کو میری نظروں سے
اسے اے کاش مری دے سکوں ادھار آنکھیں


مجھے دلاتی ہیں جنگل میں ہونے کا احساس
یہ شہر والوں کی عیار و ہوشیار آنکھیں


بچھڑتے وقت وہ رویا تو تھا مگر راقمؔ
مسرتوں میں بھی ہوتی ہیں اشک بار آنکھیں