وفا شناس محبت شناس ہے ہی نہیں
وفا شناس محبت شناس ہے ہی نہیں
اسی لئے مجھے دنیا سے آس ہے ہی نہیں
اے دشت جبر و جفا چل اٹھا فرات لپیٹ
مرے قبیلے کو پانی کی پیاس ہے ہی نہیں
عجیب فصل بہاراں ہے باغ ہستی میں
کسی بھی پیڑ کے تن پہ لباس ہے ہی نہیں
یہ عرش والوں کا قصہ ہے فرشیوں کا نہیں
زمیں پہ کوئی ولایت شناس ہے ہی نہیں
تمام لوگ روایات خود سے گھڑ رہے ہیں
کسی کو میری وصیت کا پاس ہے ہی نہیں
تمام شعروں میں تلخی حیات کی ہے رضاؔ
مری غزل میں تو کوئی مٹھاس ہے ہی نہیں