تھکن سے چور تھا شب کے کنار بیٹھ گیا

تھکن سے چور تھا شب کے کنار بیٹھ گیا
اٹھا تھا عید کا اک جو غبار بیٹھ گیا


انا کے آگے میں تن کر کھڑا رہا لیکن
مرا نصیب مرا راہ وار بیٹھ گیا


ہنر نہیں تھا ستارو تمہارے ہاتھوں میں
تمہارے تیروں کے آگے شکار بیٹھ گیا


مہک رہی ہیں اذانیں لہک رہی ہے نماز
خدا کے گھر میں کوئی بادہ خوار بیٹھ گیا


عجیب کیف کا عالم تھا تیرے خیمے میں
اٹھا نہیں جو وہاں ایک بار بیٹھ گیا