رضا نقوی کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    جو فاصلہ ہے میں اس کو مٹا کے دیکھوں گا

    جو فاصلہ ہے میں اس کو مٹا کے دیکھوں گا میں اس کے چہرے سے پردہ ہٹا کے دیکھوں گا وہ اپنے حسن مری آرزو کے زعم میں ہے میں اس کے بت کو کسی دن گرا کے دیکھوں گا وہ تخت چھوڑ کے اپنا ضرور آئے گا میں آسمان کو سر پہ اٹھا کے دیکھوں گا مرے فراق میں اس کا بھی حال مجھ سا ہے میں آپ جا کے یا اس کو ...

    مزید پڑھیے

    نئی نظمیں سنائی جا رہی ہیں

    نئی نظمیں سنائی جا رہی ہیں نئی طرزیں بنائی جا رہی ہیں ترنم جن میں عنقا سوز غائب وہ غزلیں گنگنائی جا رہی ہیں حیا کے شہر کی ساری فصیلیں کدال شر سے ڈھائی جا رہی ہیں جو فلمیں دیکھتے تھے یار چھپ کر گھروں میں اب دکھائی جا رہی ہیں عجب جمہور ہے کہ بیٹیاں بھی الیکشن میں نچائی جا رہی ...

    مزید پڑھیے

    وفا شناس محبت شناس ہے ہی نہیں

    وفا شناس محبت شناس ہے ہی نہیں اسی لئے مجھے دنیا سے آس ہے ہی نہیں اے دشت جبر و جفا چل اٹھا فرات لپیٹ مرے قبیلے کو پانی کی پیاس ہے ہی نہیں عجیب فصل بہاراں ہے باغ ہستی میں کسی بھی پیڑ کے تن پہ لباس ہے ہی نہیں یہ عرش والوں کا قصہ ہے فرشیوں کا نہیں زمیں پہ کوئی ولایت شناس ہے ہی ...

    مزید پڑھیے

    تھکن سے چور تھا شب کے کنار بیٹھ گیا

    تھکن سے چور تھا شب کے کنار بیٹھ گیا اٹھا تھا عید کا اک جو غبار بیٹھ گیا انا کے آگے میں تن کر کھڑا رہا لیکن مرا نصیب مرا راہ وار بیٹھ گیا ہنر نہیں تھا ستارو تمہارے ہاتھوں میں تمہارے تیروں کے آگے شکار بیٹھ گیا مہک رہی ہیں اذانیں لہک رہی ہے نماز خدا کے گھر میں کوئی بادہ خوار بیٹھ ...

    مزید پڑھیے