وفا کی راہ میں ہر مرحلہ آساں نہیں ہوتا
وفا کی راہ میں ہر مرحلہ آساں نہیں ہوتا
کسی کو بھول جانا درد کا درماں نہیں ہوتا
پذیرائی کہاں ہوتی ہے اب شائستہ جذبوں کی
ہر ایسا حادثہ منت کش احساں نہیں ہوتا
ٹھکانہ ایک ہی رہتا ہے کب آزاد بندوں کا
کبھی بھی سرفروشوں کا مکاں زنداں نہیں ہوتا
چھپا ہے اس طرح وہ اپنے ہی جلوؤں کے پردے میں
رخ پر نور عریاں ہو کے بھی عریاں نہیں ہوتا
وہ اپنا گھر بسا لے گا ذرا مہلت اسے دینا
کوئی بھی بے سہارا مستقل مہماں نہیں ہوتا
یہ مانا حادثہ ہے زندگی سے پیار کرنا بھی
تمہاری طرح سے کیوں دل مرا شاداں نہیں ہوتا
سلیقہ آپ نے سکھلایا اس کو جینے مرنے کا
منیرؔ اپنی طبیعت پر کبھی نازاں نہیں ہوتا