تعلقات جہاں سے نہ حادثات سے ہے
تعلقات جہاں سے نہ حادثات سے ہے
مرے خلوص کا رشتہ تمہاری ذات سے ہے
تڑپ رہے ہیں تو احباب ملنے آئے ہیں
ہمارے دل کی یہ حالت تو آدھی رات سے ہے
میں دشمنوں کو بھی اپنے عزیز رکھتا ہوں
معاشرے میں تصادم بھی ان کی ذات سے ہے
میں آئنہ ہوں مجھے دیکھ کتنا سادہ ہوں
مری نگاہ کا رشتہ جمالیات سے ہے
مشینی دور میں ہم لوگ سانس لیتے ہیں
یہ اونچ نیچ بھی شہروں کے واقعات سے ہے
قدم قدم پہ نئی زحمتوں نے یاد کیا
منیرؔ آپ کا جینا بھی حادثات سے ہے