حیات موت ہے گویا اس آدمی کے لئے
حیات موت ہے گویا اس آدمی کے لئے
جو ساری عمر ترستا رہا خوشی کے لئے
وہ رند رند نہیں پی کے جو بہک جائے
کہ ظرف کی بھی ضرورت ہے مے کشی کے لئے
غم فراق میں جیسی ہماری حالت ہے
کوئی بھی اتنا پریشاں نہ ہو کسی کے لئے
کیا ہے دوست نے آنے کا وعدہ آج کی شب
چراغ دل کا جلانا ہے روشنی کے لئے
منیرؔ غم کا مداوا کرو نہ بھول کے تم
وجود غم بھی ضروری ہے زندگی کے لئے