وعدہ رہا نہ یاد مرے مست خواب کو
وعدہ رہا نہ یاد مرے مست خواب کو
اب کیا جواب دوں دل پر اضطراب کو
زیبا غرور و ناز تھا تیرے شباب کو
ٹھکرا دیا مرے دل خانہ خراب کو
چمکے جو داغ دل مرے روز سیاہ میں
تارے دکھائی دینے لگے آفتاب کو
میدان حشر میں نہ قیامت بپا ہو اور
میں دل سنبھالوں آپ سنبھالیں نقاب کو
لاکھوں میں چن لیا تمہیں روز شمار بھی
دیکھو ذرا مری نگہ انتخاب کو
بھر آئی آنکھ جب کبھی یاد آ گئی وہ رات
بھولا نہ آج تک میں جوانی کے خواب کو
صفدرؔ کہاں میں اور کہاں حضرت ریاض
نسبت مگر چراغ سے ہے آفتاب کو