اٹھے ہاتھ دعاؤں والے بھر دے مولا
اٹھے ہاتھ دعاؤں والے بھر دے مولا
میرے شہر کا موسم اچھا کر دے مولا
دھیان سرا میں جانے کب سے بہک رہی ہیں
ان چڑیوں کو اپنے بال و پر دے مولا
خواب نگر سے اپنی فصلیں کاٹیں یہ بھی
اہل چمن کو اچھی کوئی خبر دے مولا
ان گلیوں میں مایوسی لہریں لیتی ہے
ان گلیوں کو اب تو نئی سحر دے مولا
تھکا ہوا جب کوئی مسافر لوٹ کے آئے
جیسا چھوڑ گیا تھا ویسا گھر دے مولا