اٹھا کر برق و باراں سے نظر منجدھار پر رکھنا

اٹھا کر برق و باراں سے نظر منجدھار پر رکھنا
ہمیشہ کے لیے یہ ہاتھ اب پتوار پر رکھنا


وصالی موسموں کی بازیابی چاہنے والو
بجائے شاخ گل دست طلب رخسار پر رکھنا


سر تخلیق تن کب اختراعی دھن نکل آئے
ذرا یہ ہونٹ تم بربط کے ٹوٹے تار پر رکھنا


وبال دوش تھا یہ تم کسی کونے پہ لکھ دینا
نمائش کے لیے جب سر ستون دار پر رکھنا


بقائے نوع انسانی کی خاطر چاہتا ہوں میں
اب اپنے آپ کو بارود کے انبار پر رکھنا


وہ کرنوں سے بھری دو پہریاں اب یاد آتی ہیں
فتادہ برگ اٹھانا سایہ اک اشجار پر رکھنا


زبیرؔ اقوام عالم میں بھی ہو تشہیر وحشت کی
گریبانوں کے یہ ٹکڑے خط آثار پر رکھنا